58

سماجی ہم آہنگی اور اس سے جڑے مسائل ۔ انصارللہ ناصر

سماج لفظ بذاتِ خود جڑت، ہم آہنگی، یگانگت ،آشتی و محبت کا آئینہ دار ہے. سماجی ہم آہنگی گویا کہ معاشرتی رواداری، برداشت اور قبولیت پر زور دیتا ہے. شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے نزدیک سماج کی مثال انسانی جسم کی سی ہے. یعنی سماجی اکائیاں بھی انسانی اعضا کی طرح مختلف مگر نہایت اہم کام کرتی ہیں. جس طرح ہر اک عضو کا دوسرے کے ساتھ باہمی ربط ضروری ہے, اسی طرح سماج میں موجود افراد و اقوام کا آپس میں ایسا تعلق بھی ضروری ہے جو دوسرے کی معاشی احتیاجات,، مذہبی عبادات اور لسانی و قومی ضروریات کا نہ صرف احترام کر بلکہ ہر ممکن انتظام و انصرام بھی کرے.
سماجی ہم آہنگی کے لئے ضروری ہے کہ معاشرے میں برداشت اور قبولیت کی فضا قائم ہو. مسالک و مذاہب ، لسانی و تہذیبی تقسیم سے بالا تر ہوکر معاشرے کی منقسم اکائیوں کو جوڑا جائے اور اخوت و رواداری کو فروغ دیا جائے. سوشل انکلوژن یعنی سماج کا ہر فرد اس سماج کے مجموعی اعمال میں حصہ لے اور اس عمل سے پیدا ہونے والے سوشل کیپٹل سے پورا معاشرہ اگر مستفیض نہ ہو تو سماجی ہم آہنگی اک خواب ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق واسطہ نہیں.
حقیقت یہ ہے کہ برصغیر تاریخی اعتبار سے وسیع المشرب اور وسیع القلب خطہ رہا ہے. تین بڑے مذاہب ہندومت، سکھ مت اور بدھ مت کی بنیاد و استحکام کی امانت اس خطے سے وابستہ رہی ہے. یہ خطہ قریباً چار ہزار برس سے امن, رواداری, معاشی خوشحالی مذہبی ہم آہنگی کا داعی رہا ہے.
لیکن افسوس ہے کہ سترھویں صدی عیسوی کے بعد غلامی کی اس سیاہ رات کا آغاز ہوتا ہے جس کے فیوض و برکات مذہبی منافرت, سیاسی عدم استحکام اور معاشی بھوک کی صورت میں ہم دیکھ رہے.
وطنِ عزیز کی دگرگوں حالت اس بات کی غماز ہے کہ یہ معاشرہ سماجی اضمحلال کا شکار ہے. غلامی نہ صرف قومی حمیت کو نشانہ بناتی ہے بلکہ غیر انسانی رویوں جیسے کہ نفرت اور متشدد ذہنیت کو فروغ دیتی ہے. اس ضمن میں مختلف ادارے اپنا اپنا جردار ادا کرتے ہیں. راہ زن جب راہنما بنیں, گِدھ جب معاشی امور کے نگران مقرر ہوں, سرمایہ دار و جاگیردار جب مقننہ میں جلوہ افروز ہوں, خانقاہ و تعلیمی نظام جب جُہلاء پیدا کرے اور منبر و محراب سے نفرت اور مار دو جلا دو کی صدائیں بلند ہوں تو سمجھ لینا چاہیئے کہ معاشرے کے نقوش Divide and rule یعنی لڑاؤ اور حکومت کرو کے اصول پر استوار ہیں. اور اس سامراجی اصول پر کبھی بھی معاشروں میں سماجی ہم آہنگی پیدا نہیں ہو سکتی.
موجودہ سٹرکچر میں چند ایک ایسے مسائل ہیں جو سماجی وحدت کو پارہ پارہ کر رہے ہیں جن میں سے پہلا مسئلہ لسانی کشاکش ہے. اردو گو کہ رابطے کی زبان ہے لیکن مقامی زبانوں کی کمتری پر اردو کا نفاذ درست فیصلہ نہیں اسی طرح انگریزی کا دفتری نفاذ بھی عوامی بے سکونی و عدم اعتمادی کا باعث ہے. دوسرا اہم اور بنیادی نکتہ ملکی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے جس سے نہ صرف عام آدمی پِس رہا ہے بلکہ صوبے بھی آپس میں متفق نہ ہیں. تیسرا اور اہم مسئلہ مذہبی منافرت کا ہے گوکہ اختلافِ رائے انسانی سماج کا حسن ہے لیکن اس سے نفرت کی فضا قائم کرنا بالکل درست عمل نہیں, مذہبی انتہا پسندی کا بیج الگ قوم والے خناس سے پیدا شدہ ہے جو مذید تقسم در تقسیم سے گزر کر ہمارے سامنے آگ کی صورت میں سن سنتالیس سے آج تک قریباً ستر لاکھ انسانی جانیں نگل چکا ہے.
مسجد میری توں کیوں ڈھاویں, میں کیوں توڑاں مندر نوں,
آجا دوویں بیہہ کے پڑھیئے اک دوجے دے اندر نوں.
ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان سماجی شعور بیدار کرے اور وطنِ عزیز میں لگی آگ کا سب سے پہلے تو تجزیہ کرے اور پھر کامل ادراک کے ساتھ اس مکالمے کی فضا پیدا کرے تاکہ اپنے سماج میں وحدت قائم کی جاسکے.

اپنا نعرہ بھی انالحق ہے مگر فرق یہ ہے,
ہم وہی بات بہ اندازِ دگر کہتے ہیں..

فیس بُک پر لاگ ان ہو کر کمنٹ کریں
شئیر کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں