ایڈیٹر کی رائے
کیا آپ سترہ اٹھارہ ہزار روپے میں برائے فروحت ہیں ؟
بیروگاری کے حالات یہ ہیں کہ گزرے رمضان المبارک میں افطاری کروانے والوں سے زیادہ افطاری کرنے کے لئے پھرتے لوگ تھے ، آپ اسے گزشتہ تین سالوں میں حکومت کی سرپرستی میں پنپنے والی قومی عادت کہیں یا مجبوری یہ آپکی مرضی ہے ، اس صورتحال کا کسی کے حالات خراب ہونے اور ہڈ حرام ہونے میں بھی فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے –

اب چونکہ آپکا شک دور ہو چکا ہے تو آئیں دیکھتے ہیں کہ سترہ اٹھارہ ہزار روپے میں آپکو کہاں کہاں مرنے کے لئے خریدا جا سکتا ہے –
سب سے پہلے ہیں بینک جہاں روز کروڑوں کا لین دین ہوتا ہے مگر آپکو سترہ اٹھارہ ہزار روپے میں ہی مرنا ہے ، اسکے بعد آپکے شہر یا قصبے میں جیولر شاپ ہے جسکے باہر کھڑے جست اور خوبصورت نوجوان کی جاب کی قیمت بھی اتنی ہی ہے – آگے چلیں تو آپکو کسی قبضہ گروپ والے لچے کے پیچھے چلتے درجن بھر اسے جوان نظر آئیں گئے جن کی مسئیں ابھی ابھی بھیگی ہوں گی ، انکی اپنی جاذبیت سے زیادہ انکے ہاتھوں میں نظر آنے والی بندوقیں خوبصورت ہوں گی ، مگر یقین کریں اس کے باوجود انکی زندگیوں کی قیمت صرف چند ہزار روپے ہی ہونے ہیں – بڑے بلکہ بہت بڑے گھروں کے باہر کھڑے چوکیدار کا تو مت ہی پوچھیئے وہ بیچارہ تو دو وقت کی روٹی پر مرنے کے لئے ہی تیار ہے
اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارا ہر بے روزگار نوجوان اور ادھیڑ عمر ریٹائرڈ شخص اپنی جان اتنی کم قیمت میں ہارنے کے لئے بے تاب بھی ہے – کیا ایسی نوکریاں دینے والوں کو بھی اسی تناظر میں نہیں دیکھا جانا چاہیئے جس میں ایک خودکش حملہ آور تیار کرنے والے ملک دشمن عناصر کو دیکھا جاتا ہے ؟ کیا پاکستانی لوگوں کی زندگیاں اتنی غیر اہم ہو چکی ہیں کہ انکی قیمت فقط سترہ اٹھارہ ہزار روپے لگا دی جائے ؟