دنیا کی جان لیوا مصروفیت میں سکون کا گوشہ مقام اعتکاف ھے دنیا کا سارا کاروبار دنیا کا سارا سازو سامان اور اہل و عیال کو چھوڑ کر انسان چند چیزوں کے ساتھ رمضان کے آخری عشرے میں اللہ کے گھر میں آ بیٹھتا ہے اور اللہ کے گھر کے ایک کونے میں ایک مسافر کی طرح ایک مہمان کی طرح ایک بے کس و بے سہارا انسان کی طرح یہ سارا عشرہ گزارتا ہے۔
وہ عشرہ جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ یہ بندہ مومن کو۔ آ گ سے بچانے والا عشرہ ہے حضرت عبداللہ بن عباس رض بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معتکف اعتکاف کرنے والے کے بارے میں فرمایا اعتکاف کرنے والا چونکہ اعتکاف کے زمانے میں گناہوں سے رکا رھتا ھے اس لئے اس کے حق میں وہ تمام نیکیاں لکہی جاتی ہیں جو اس شخص کے حق میں لکہی جاتی ہیں جو تمام نیکیوں پر عمل پیرا ہو ابن ماجہ۔ اعتکاف یہ ہی تو ہے کہ آ دمی دنیاوی کاروبار اور تعلقات سے کٹ کر الگ تھلگ ہو کر گھریلو مصروفیات اور نفسانی خواہشات سے بے تعلق ہو کر فکر و عمل کی ساری قوتوں کو خدا کی یاد اور عبادت میں لگا دے اور سب سے الگ ہو کر خدا کے پڑوس میں جا بسے۔
عمل سے ایک طرف تو آدمی ہر طرح کی فضول باتوں اور برائیوں سے محفوظ رہے گا دوسری طرف خدا سے اس کا تعلق مضبوط ہوتا ہے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور اللہ کی یاد اور عبادت سے قلب و روح کو سکون اور سرور محسوس ہوتا ہے اور چند دن کی تربیت کا یہ عمل اس کے دل پر یہ گہرا اثر چھوڑے گا کہ دنیا میں اپنے چاروں طرف ہر طرح کی رنگینیاں اور دل کشی دیکھنے کے با وجود خدا سے تعلق مضبوط رہے خدا کی نا فرمانی سے بچے اور اس کی اطاعت میں قلب و روح کا سکون و سرور تلاش کرے۔
پوری زندگی خدا کی بندگی میں گذارے اعتکاف میں نظر اسی پر مقصود رہے کہ لا الہ الااللہ تو حقیقت میں اعتکاف کا یہی مقصد ہو تو جس نے اس نیت سے اعتکاف کیا وہ واقعی معتکف ہے ورنہ جو شخص اس اخلاص سے محروم رہا اس کا اعتکاف بے روح ہے یہ نیت کا ذرا سا کہوٹ ساری محنت پر پانی پھیر دینے والا ہوسکتا ہے پس اعتکاف کا مطلب دنیا سے کٹ کر اللّٰہ سے جڑنا اور عبادت کرنا ہے اعتکاف کی اصل روح یہی بندگی اور تعلق باللہ ہے۔