سوشل میڈیا میں بہت کم عرصہ ہوگیا ہے، اپنے محدود ذھن کے مطابق تجربہ بھی تھوڑا ہی رہا ہے، لیکن سوشل میڈیا کا مزہ تب جان گیا جب لکھنے کا شوق دل میں آنگڑائی لینے لگا، اچھے اچھے لکھنے والے احباب سے واسطہ پڑا انکی تحریریں پڑھنا شروع کیا، اور ان جیسے بننے کی کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنے لگا۔ پھر دوسروں جیسے بننے کے لئے سوچا غور کیا نتیجتاً اس مقام میں پہنچ گیا کہ کسی کی نقل کرکے کوئی ان کی طرح بننے کی کوشش کرے تو ان کی طرح بننا تو دور کی بات وہ اپنے آپ میں موجود صلاحیت بھی کھو دے گا، نہ ادھر کے رہے گا نہ ادھر کے۔
راحت اندوری صاحب بہت بڑے شاعر ہیں ایک پروگرام میں ان سے ایک چھوٹا شاعر سوال کرتا ہے کہ سر میں چاہتا ہوں میرا انداز آپ جیسا ہو میں آپ کی طرح شعر پڑھوں سناؤں، لیکن ہزار کوشش کے باؤجود مجھ سے نہیں ہورہا آپ جیسے بننے کے لئے مجھے کیا کرنا ہوگا؟ راحت صاحب کچھ یوں گویا ہوتے ہیں کہ ایک مشاعرے میں ایک بہت خوبصورت جوان شعر پڑھا اور بالکل میری نقل اتارتے ہوئے میرا انداز اپنایا ہوا تھا، جب اس نے مائیک چھوڑی تو میں نے نوجوان کو داد دیتے ہوئے کہنے لگا، بیٹا راحت اندروی بننے کے لئے چہرے کو بھی کالا کرنا پڑتا ہے، آپ سفید رنگ میں ہی اچھے اور خوبصورت دکھتے ہیں، لھذا آپ اپنے آپ میں ہی ٹھیک ہو، مجھ جیسے بننے سے کچھ نہیں ہوتا۔
یہ بات صرف لکھنے میں ہی نہیں بلکہ آپ خطابت، شعر پڑھنے، قرات کرنے غرض کسی بھی کام میں کسی کی نقل اتار کے خود کا نقصان ہی کرسکتے ہیں۔ خیر کہنے کا مقصد یہ ہے، ہم کو تھوڑا بہت لکھنا آجائے تو ہم عدم برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو بڑے لکھاریوں کے بیچ شمار کرنے کی سوچ پالتے ہیں، لکھنے والا چھوٹا بڑا نہیں ہوتا۔ ہم اگر یہ چاہتے ہیں ہمارے فالوورز ہوں، ہماری تحریریں بھی پڑھی اور پسند کی جائے تو ہم کو اپنے مقام میں اس موضوع میں قلم چلانے کی ضرورت ہے، جس موضوع کو ہر کوئی پسند کرتا ہے، جس سے لوگ مستفید ہوتے ہوں، اور تحریر اس انداز میں ہو جس کو پڑھنے والا بچہ ہو یا بڑا ادب سے شغف رکھنے والا ہو یا صرف اردو کی عبارت پڑھنے والا سب کو باسانی سمجھ آجائے، کیونکہ ہر لکھنے والا خود میں اک مقام رکھتا ہے، ہر کسی کے اندر ایک الگ صلاحیت موجود ہوتی ہے۔
سیاست میں ہماری لکھی ہوئی بات کوئی حیثیت نہیں رکھتی، سیاست میں لوگ حامد میر، سلیم صافی جاوید چودھری وغیرہ کو پڑھیں گے، اسلئےخود کو ٹٹول کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، کہ میرے اندر ایسا کیا ہے اور میں کیا کرسکتا ہوں؟
تو بات لکھنے کی آئی ہے تو لکھنے کے لئے سب سے پہلے پڑھنے کی ضرورت ہے، بغیر مطالعہ کی تحریر بے جان سی محسوس ہوتی ہے، آج کل کتاب سے دوستی کوئی نہیں کرتا، چے جائے کہ مطالعہ کرکے کچھ حاصل کیا جائے، کتاب کے ساتھ ساتھ ایسے شخصیات سے ملنا جلنا بھی بہت ضروری ہے جو اس فیلڈ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، کیونکہ میرا ماننا ہے، ایک بڑی کتاب دس دن لگاکے پڑھنے سے وہ اہم چیز حاصل نہیں ہوسکتی جو ایک گھنٹہ کسی کتاب دوست شخص سے حاصل ہوتی ہے، لہٰذا پڑھنا، پڑھنے کے بعد لکھنا اور اہل علم کے ساتھ نشست بہت ضروری ہے۔