“عالمِ فانی کے فطرتاً با اقتدار گروہ میں کُچھ ایسے بزرگ وجود پائے جاتے ہیں جو جوانی اپنے وطن اور اپنے دور میں گزار کر بڑھاپا ایک الگ ہی دور میں گزارتے ہوں گویا۔ اُن سنہری دور کے جوانوں میں سے ۲۲ جنوری ۲۰۰۲ء کو جنم لینے والا یہ وجود اپنی ہی داستان لکھنے کا خواہاں ہوا۔ عصر من دانندہ اسرار نیست
یوسف من بہر این بازار نیستاِس
زمانۂ انجان میں گر کُچھ اپنا ہے تو اپنے دور کی وہ یادیں جنہیں کبھی پراسرار خوابوں، لوگوں تو کبھی مقامات میں پایا۔ کُچھ علامتیں تو اُس رواں دواں کارواں کو جوڑنے کی صلاحیت سے بھرپور ہیں جس کا میں بچھڑا ہوا ایک مسافر ہوں۔ لیکن اپنے حصے کا نور تو وہی پانے کی اہلیت رکھتا ہے جس کا فطری نور سلامت ہو نور علیٰ نور۔ کھوکھلے دیے تو جہاں میں آتے ہیں جلتے بھی نہیں اور ٹوٹ بھی جاتے ہیں۔ لہٰذا قُدرت نور کی شدّتِ طلب تو مانگے گی یہی تو رسمِ عالم ہے۔
نقطۂ نوری کہ نام او خودی است
زیر خاک ما شرار زندگی استحیاتِ ہے
نام میں گر کچھ دلچسپ تھا تو دینِ فطرت کا وہ نظریہ جسے صدیوں میں کوئی خوش بخت اپناتا ہے۔ بنتِ حوا ہوکر اِسے اپنانا باعثِ فخر تو تھا ہی پر باعثِ تجسس بھی کہ غیب پر یقین رکھنے والوں کیلیے صاحب القدرت نے، کُتب تاریخِ اسلامی کا مطالعہ کرتے ہوئے، ایک ایسا راز میرے اوپر عیاں کیا جو عوام الناس کیلیے یقیناً مذاق کا باعث ہوگا۔ ‘۲۲ جنوری’ ایک تاریخ نہیں مگر ایک درد اور سانحہ کا اب تک چُھپا ہوا راز تھا۔ وہ دن جب دُنیا کو وحشت کے اندھیروں میں ڈالنے والے وحشی کافر مغلوں نے مرکزِ خلافتِ اول کا محاصرہ کرکے ٹھیک آٹھ دن بعد اُمتِ احمد مرسل (ﷺ) کو پہلا اور گہرا گھاو لگایا اور ٹھیک یہی دن تھا جب وجودِ کمتر نے اپنی آنکھوں سے پہلی بار دُنیا کے سُہانے رنگ دیکھے۔قرآن کا یہ فرمان کہ ہر چیز جوڑے کی شکل میں بنائی گئی ہے کس قدر حقیقت ہے اِس کا اندازہ مُجھے اب جاکر ہوا، چناچہ درد اور سانحہ کا اہلِ بصیر کے لیے فطری اور انوکھا تعلق ہے۔ وہ درد جس نے اِس جان کو تڑپا رکھا تھا دراصل اِسی وجود کا ایک اہم حصہ ہے۔
موسمِ بہار میں بھی سوکھے شجر کی طرح کھڑا رہنے والا یہ وجود تو فقط اپنے چمن اپنے گلشن کے لیے انتظارِ محال میں کھڑا تھا۔ بات ابھی اختتام تک کہاں پہنچی! کڑیوں سے کڑیاں مل کر میری روح کا مکمل ہونا تو ابھی باقی تھا۔ یوں بھی اپنے ماموں جان اور بزرگوں سے اپنے آبائی دیس کی داستانیں سنتی آئی تھی۔ اور مزید ہمارا تعلق بلوچ نسل کے ایک قبیلے نظامانی سے ہے۔ ہمارے جدِ امجد نظام الدین عرف سخی نظام فقیر بلوچ قوم کے بوذدار قبیلے کے مشہور سردار اور بہادر محمد بوذدار کے فرزند تھے۔علاوہ ازیں مورخین کی مختلف آراء آپ کے لیے پیشِ خدمت ہیں:جسٹس میر خدا بخش مری:بلوچوں کی بہادری اور کارناموں اور جسم کی بناوت کے پیشِ نظر کہا جاسکتا ہے کہ وہ شام کی عظیم سامی نسل کی ایک شاخ ہیں۔محمد سردار خان گشکوری بلوچوں کا سامی نسل میں سے ہونے کا دعویدار ہے۔خان آف قلات سردار احمد یار خان جو خود اپنی سوانح حیات میں اعتراف کرتے ہیں ہیں کہ:بلوچوں کے قدیم قافلے دریاۓ دجلہ اور حلب کے بیچ میں آباد تھے۔ وہاں سے ایران کی طرف ہجرت کرکے بحیرہ خضر میں آباد ہوئے۔
ہمت او آنسوی گردون گزشت
رانکہ در گفتن نیاید آنچہ دید
از ضمیر خود نقابی برکشید
تاریخی حقائق سے ناآشنا ہونے کے باوجود اپنی آبائی سرزمین سے ہمیشہ ایک الگ ہی سا تعلق رہا۔ یوں تو جہاں جہاں آبا نے قانونِ الٰہی کی خاطر قدم جمائے وہ جگہ قریبِ قلب رہی۔ اُندلس کے پہاڑ میرے دامن کے لیے وسیع نظر آتے۔ القُدس کی گلیوں کی تو کیا ہی بات کی جائے۔ ایسی حسین جیسے رنگوں میں پروہی گئی خطاطی۔ مگر بغداد کی مساجد کے خوبصورت منبر اور اُن پر وہ دلکش کاریگری، شیراز و اصفہان کے پُرکشش و تاریخی جمال رکھنے والے وہ بازار، فن کی مہارت اور خلوص سے بُنے گئے رنگ برنگے قالین اور وہ چاندی کے شاہانہ زیورات میرے وجود کا ایک ان کہا حصہ رہے ہیں۔ بغداد سے تو میرا دوہرا تعلق ہے ایک تو اِس میں میری بنیادیں پیوست ہیں اور دوئم میرے آباؤاجداد کی فتح کردہ ارضِ مقدسہ۔روح و جسم سے ہی جان ممکن ہے لہٰذا بغداد میرا وجود ہے۔ وہ الگ بات کہہ دی شاعر نے۔
وائے من ازبیخ و بن برکندہ ئی
از مقام خویش دور افکندہ ئی
یہ میری حیات کا بے ڈھنگ نغمہ تو تھا نہیں جسے یوں ہی مٹھی میں ریت کی طرح ضائع کردوں۔ یہ تو سرمایۂ زندگی ہے۔ ماضی کے اِس شمع دان سے عالمِ تاریک کو روشن کرنے کی آرزوئے قلب ہے۔ اور عالمِ تاریک اِس ماضی کے شمع دان سے، جو ایمان کے خالص تیل سے جلایا گیا ہے، روشن ہوگا یہ میرا ایمان ہے۔
تاریخی حقائق بشکریہ رئیس عبدلاجبار