جو چیزیں بظاھر دہشت زدہ لگتی ہیں ، ہم اُنہیں دیکھتے ہی بھاگنے لگتے ہیں کیونکہ ہم خود کو پریشانیوں یا مسائل میں گھیرنا نہیں چاہتے _اور اُس کے برعکس کئی چیزوں میں ہم خود کو اِس بِنا پر پھنسا دیتے ہیں جن میں ظاہری طور ہمیں فائدہ محسوس ہوتا ہے لیکن حقیقت میں وہ آگ کے مانند ہوتے ہیں_
آگ کو کبھی غور سے دیکھیں گے تو ایسا لگے گا کہ بڑی پر کشش ہے_ ڈر کو ایک طرف رکھ کر کبھی محسوس کیجیے گا کہ بڑھکتی ہوئی آگ کے شعلے کیسے اُٹھ رہیں_ کیسے وہ پیدا ہو رہے ہیں اور روشنی کر رہی ہیں_! یقیناً وہ آپ کو اپنی طرف کھینچ رہیں ہوں گے_ لیکن اگر آپ اُس کی اِس چال میں آ گئے تو جل جائیں گے_ راکھ بن جائیں گے_ ختم ہو جائیں گے_! وہ آپ کو کھا جائے گی__ وہ خوبصورت صرف دیکھنے کی حد تک ہے _ اُس کا اثر آپ کے وجود کو پارہ پارہ کر کے رکھ دے گا_
اِسی طرح کبھی کبھار دُنیا میں ہم کئی چیزیں حسین اور آسان سمجھ کر کرتے ہیں ، مگر وہ ہمارے لیے بے انتہائی نقصاندہ ہوتی ہیں_ اُن کا اثر آگ کی طرح جلانے جیسا ہوتا ہے_ کئی دفعہ وہ ہمیں اِس طرح جکڑ لیتے ہیں کہ بچنے کے آثار ہی دکھائی نہیں دیتے_ کم ہی ہوتے ہیں جنہیں خود کو آزاد کرنے کا طریقہ آ جاتا ہے_
زندگی میں دوسری ہماری نادانی یہ ہوتی ہے کہ ظاہری طرح مشکل چیزیں دیکھ کر ہی بھاگ جاتے ہیں_ کبھی اُن کی دعوت پر لبیک ہی نہیں کرتے_ اُن کی شکل اور روب ہی ایسا ہوتا ہے کہ خوف سے لرز جاتے ہیں_!! جیسے کہ سمندر_!!!!سمندر میں موجود موجیں جو دوڑتی ہوئی آ رہی ہوتی ہیں_ ایک کے اوپر دوسری لہر…. دوسری پر تیسری…. پھر چوتھی…… یُوں لا محدود_!!!! اُس کی آواز لرزہ طاری کر دیتا ہے_
وہ اپنی طرح کھینچنے کے بجائے ہمیں پیچھے کی طرف دھکیل رہا ہوتا ہے_!! اوپر سے اُس میں موجود بلائیں_!!!! واللہ،، انسان اُس میں جانا موت قرار دیتا ہے_لیکن ایک بار جب بندہ کود جائے تو اِس کا مزہ ہمیشہ یاد رہتا ہے_ گویا وجود کھو سا جاتا ہے کہیں_ پھر ٹھنڈک………! مثال نہیں_!!!!!مگر یہ ہمت کس میں ہے ؟ کون مگر مچھ کے منہ میں ہاتھ ڈالے_!کس میں ہے اتنی دلیری!!!!
یہ مثال دیکھ کر میں سمجھ گئی کہ خوبصورت چیزیں اکثر فریب ہوتی ہیں اور خوفزدہ چیزیں اکثر حسین ہوتی ہیں_ اصل بات اثر کی ہے_ اثر بُرا ہے چیز بری کہلاۓ گی_ اثر میٹھا ہے چیز اچھی کہلاۓ گی_
زندگی میں ہمیشہ دو راستے ہوتے ہیں_ ایک انتہائی مشکل اور دوسرا بہت ہی آسان لگتا ہے_مگر مشکل راستے ہی منزل حسین ہوتی ہے_ پر دیکھنے میں سمندر کی مانند ہولناک ہوتا ہے_ خود کو اُس کے حوالے کرنے کی ہمت ہر کسی میں نہیں ہوتی_ اِس میں کودنے کے لیے حقیقت کی تلاش کا جذبہ درکار ہوتا ہے_اِس میں خود کو اور ربّ کو پانے کے چاہ شرط ہوتی ہے _ایک بار کود جانے کے بعد کئی راز کھلتے ہیں_ حکمتِ زندگی معلوم ہوتی ہے_
مگر یہ حوصلہ قسمت والوں کے پاس ہوتا ہے_ اِس میں کودنے کے لیے ارادے کی پختگی چاہیے_ اللہ پاک میں کامل یقین چاہیے_ يہ یقین ہی کودنے پر آمادہ کرتا ہے_ایک شعر میں اسے یُوں بیان کیا گیا ہے:
“ارادے جن کے پختہ ہوں،نظر جن کی خدا پر ہو،
تلاطم خیز موجوں سےوہ گھبرایا نہیں کرتے_!”
اِن دونوں راستوں میں سے ہمیں کوئی ایک راستہ ہی مل سکتا ہے_یا تو آگ کی جکڑ میں جائیں گے یا سمندر کی ٹھنڈک مقدر بنے گی۔